محترمہ مریم نوازشریف صاحبہ
نائب مرکزی صدر،پاکستان مسلم لیگ(نون)، شمیم فارم،جاتی امرا، رائے ونڈ روڈ، لاہور اور 180۔ایچ ،ماڈل تاؤن، لاہور ۔
اسلام وعلیکم!
امیداوراللہ پاک سے دعا ہے کہ آپ کورونا سے مکمل صحت یاب ہو گئی ہوں گی۔میں نے آپ کے دوتین ٹویٹس پڑھیں ہیں جو حسبِ ذیل ہیں۔
”مسلم لیگ ن کو کھلے دل سے نتائج تسلیم کرنا چاہییں۔ عوام کے فیصلے کے سامنے سر جھکانا چاہیے۔ سیاست میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔ دل بڑا کرنا چاہیے۔ جہاں جہاں کمزوریاں ہیں، ان کی نشاندہی کر کے انھیں دور کرنے کے لیے محنت کرنی چاہیے۔ انشاءاللہ خیر ہو گی۔“
میرے خیال میں آپ پاکستان کی پہلی سیاستدان ہیں کہ جس نے اپنی پارٹی کی شکست کو کھلے دل اور جمہوری اندازمیں تسلیم کیا ہےاور جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ آپ سے پہلے آج تک پاکستان میں کسی بھی سیاست دان نے یہ تسلیم نہیں کیا ہےکہ اسکی پارٹی کو الیکشن میں شکست ہو گئی ہےبلکہ جو بھی پارٹی الیکشن میں ہارتی ہے وہ دھاندلی دھاندلی کا شور مچانا شروع کر دیتے ہیں۔عوام نے آپ کی اس حق گوئی کو پسند کیا ہے۔آپ نے الیکشن نتائج مان کرعملی طور پر ثابت کیا ہے کہ آپ حقیقی معنوں میں جمہوریت پسند اورایک ڈیموکریٹک شخصیت کی حامل ہیں اورمیں آپ کو کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی طرف سے اس جمہوری رویہ پرسرخ سلام پیش کرتا ہوں۔
علاوہ ازیں آپ کی دوٹویٹس جو عدلیہ اور سپریم کورٹ آف پاکستان سے متعلق ہیں وہ بھی قابلِ تحسین ہیں جو درج ذیل ہیں :۔
”موجودہ سیاسی انتشار اور عدم استحکام کا سلسلہ اس عدالتی فیصلے سے شروع ہوتا ہے جس کے ذریعے آئین کی من مانی تشریح کرتے ہوئے اپنی مرضی سے ووٹ دینے والوں کے ووٹ نہ گننے کا حکم جاری ہوا ۔آج اس کی ایک نئی تشریح کی جا رہی ہے تاکہ اب بھی اسی لاڈلے کو فائدہ پہچنے جسے کل پہنچا تھا!نا منظور!“
”اگر انصاف کے ایوان بھی دھونس، دھمکی،بدتمیزی اور گالیوں کےدباؤ میں آ کر بار بار ایک ہی بنچ کے ذریعے مخصوص فیصلے کرتےہیں،اپنے ہی دیے فیصلوں کی نفی کرتے ہیں،سارا وزن ترازو کے ایک ہی پلڑے میں ڈال دیتے ہیں تو ایسے یکطرفہ فیصلوں کے سامنے سر جھکانے کی توقع ہم سے نا رکھی جائے۔بہت ہو گیا!“
آپ نے جو سپریم کورٹ کے بارے میں کہا ہے وہ سو فیصد درست اور حقائق پر مبنی ہے۔سپریم کورٹ آف پاکستان اور عدلیہ کی مجموعی ساکھ عوام میں اچھی نہیں ہے اور ہمارے ہاں یہ تاثر عوام میں عام پایا جاتا ہے کہ پاکستان کی عدالتیں صرف لٹیروں،چوروں،منشیات فروشوں، قبضہ گروپوں اور امرا اور عیاش طبقات کےتحفض اور مفادات کے لیے ہی ہیں اور سیاسی طور پرسپریم کورٹ کے اکثروپیشتر فیصلے فوجی آمروں اورلاڈلے عمران خان کےحق میں ہی کیئے گئے ہیں۔میں بذات ِخودکمیونسٹ پارٹی کی جانب سے بطورِسائل ڈکٹیٹرجنرل پرویزمشرف کے خلاف آئین پاکستان کی آرٹیکل 6کے تحت غداری کے مقدمے،جنرل پرویز مشرف کی وردی میں صدارتی الیکشن اورdual office، سابق چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری کی برطرفی کے خلاف اور انکی بحالی،آئین پاکستان 1973 میں ایل ایف او اور 17 ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کیا، Contempt of Court Act, 2012 کی منسوخی،فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف اور دیگر کئی عوامی مفادکی آئینی پٹیشن میں کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے سپریم کورٹ میں متعدد بارپیش ہو چکا ہو ہوں اس لیے مجھے اچھی طرح سمجھ ہے کہ سپریم کورٹ کس طرح فیصلے کرتی ہے۔
کمیونسٹ پارٹی نے سول بالادستی اور حقیقی جمہوریت کی ہمیشہ جدوجہد کی مگر بدقسمتی سے ہماری عدلیہ، ملٹری ایسٹبلشمنٹ، اینٹیلیجنس ایجنسیوں اور پاکستان کی اکثرسیاسی ومذہبی جماعتوں کا کردار سول بالادستی اور حقیقی جمہوریت کے منافی رہا ہے ۔کمیونسٹ پارٹی کے نزدیک سول بالادستی اور حقیقی جمہوریت سے مراد یہ ہے کہ جس میں تمام ادارےبشمول عدلیہ ،فوج اوراینٹیلیجنس ایجنسیاں نیوٹرل نہیں بلکہ آئینِ پاکستان1973کےتحت جو حلف اٹھا رکھا ہے اسکی پاسداری کریں مگر اب تک کی تاریخ یہ ہے کہ سول بالادستی اور حقیقی جمہوریت کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ملٹری ایسٹبلشمنٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان ہےجو اپنے آئینی حدود سے تجاوز کر کے فیصلے صادر فرما رہیں ہیں۔
محترمہ مریم نوازشریف صاحبہ! اس ضمن میں گزارش ہے کہ میں نے بطور سائل سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال اور سپریم کورٹ کے دیگرتمام ججوں کے نام ایک کھلا خط بذریعہ ڈاک30 مئی 2022 بھیجا تھاجس کی کاپی لف ہے۔اس خط میں چارمسائل پر سپریم کورٹ سے انصاف مانگا تھا مگر تا حال اس پر کوئی بھی کاروائی نہیں ہوئی ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ آپ ایک بڑی اور ملک گیر سطح کی پارٹی ہیں اس لیے آپ بھی درج ذیل چارمسائل پرآواز اٹھاکر شکریہ کا موقع دیں۔حقیقت میں یہ چار مسائل آپکی پارٹی کو بھی درپیش ہیں۔
(1) سپریم کورٹ آف پاکستان اگر عوام میں اعتماد بحال کرنا چاہتی ہے تو سب سے پہلے جنرل پرویز مشرف کو سپیشل ٹریبونل سے دی جانے والی سزائے موت کے اس فیصلے پر عمل کرائے جو سپیشل ٹریبونل کے سربراہ اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمدسیٹھی نے17دسمبر 2019 کودیا تھا اور پھر اس فیصلے کے بعد لاہور ہائی کورٹ نےمورخہ 13جنوری 2020 کویہ فیصلہ دیا تھا کہ سپیشل ٹریبونل کا قیام ہی غلط تھا۔بہرحال عوام میں یہ تاثر عام ہے کہ جو فیصلہ سپیشل ٹریبونل نے دیا ہے وہ بالکل درست ہے اور جو بعد میں فیصلہ لاہور ہائی کورٹ نے کیا ہے وہ انصاف پر مبنی فیصلہ نہیں ہے بلکہ صریحاََ غلط فیصلہ ہےاوریہ فیصلہ دیا نہیں بلکہ زبردستی ملٹری ایسٹبلشمنٹ نے اپنی طاقت کی بنا پر لاہور ہائی کورٹ سے حاصل کیا تھا۔ اب ان دونوں میں کون سا فیصلہ درست ہے اس کافیصلہ سپریم کورٹ کو فوراََکرنا چاہے تا کہ عوام میں پایہ جانے والایہ تاثر دور ہو سکے کہ سپریم کورٹ صرف سیاست دانوں کو ہی نہیں بلکہ ایک جرنیل کو بھی سزا دینے کی صلاحیت و طاقت رکھتے ہیں۔اس ضمن میں یاد رہے کہ آرٹیکل 6 کےتحت سپریم کورٹ میں جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ دائر کرنے کے لیے سب سے پہلی جو آئینی پٹیشن 7ستمبر 2009 میں دائر ہوئی تھی وہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی جانب سے سائل نے خود ہی دائر کی تھی جس کا عنوان تھا کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان بنام فیڈریشن آف پاکستان وغیرہ اور پھر اس مقدمے کی باضابطہ پیروی کرتے ہوئے سائل مسلسل فل بینچ جس کی سرپراہی مسٹر جسٹس جواد ایس خواجہ، مسٹر جسٹس خلجی عارف حسین اور مسٹر جسٹس اعجاز افضل خان کر رہے تھے کےسامنے تمام تواریخ پر 15اپریل 2013سے 3جولائی 2013پیش ہو کر اس کیس کی پیروی کرتا رہا ہےاور بالاآخر سائل اور ایسی دیگر کئی پٹیشنزکی بنا پر سپریم کورت کے حکم مورخہ 3جولائی 2013پر حکومتِ پاکستان نے جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین پاکستان کے آرٹیکل 6کے تحت مقدمہ کی کاروائی کا آغاز کیا اور اب سائل کی خواہش اور مودبانہ استدعا ہے کہ اس کیس کی اپیل کا فیصلہ جلد کیا جائے۔
(2) سپریم کورٹ میں لینڈ ریفارمزپرورکرز پارٹی پاکستان بنام فیڈریشن آف پاکستان وغیرہ کی دائر کردہ آئینی پٹیشن نمبر 97آف 2011جس میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان بھی شریک مقدمہ ہے، وہ کیس 2011سے التوا میں پڑا ہوا ہے اور اس کا فیصلہ ابھی تک سپریم کورٹ نے نہیں دیا ہے جب کہ اس کیس سے انگنت اورلاتعداد کسانوں کا مستقبل وابستہ ہے۔اس کیس کی آخری سماعت 16جنوری 2014کو ہوئی اور لاتعداد کسان سپریم کورٹ کے فیصلے کے منتظر ہیں مگر یہ کیس بالادست طبقات کے مفادات کے پیشِ نظر سرد خانہ میں پڑا ہوا ہےجبکہ یہ کہا جاتا ہے کہ
“Justice delayed is justice denied”
(3) مسنگ پرسنزہمارے ملک پاکستان کا ایک بہت سنجیدہ مسئلہ ہے۔ کسی کو نظریات کی بنا پر لاپتہ کرنا سب سے بڑا گھناؤنا جرم ہے۔پاکستان کا آئین حکومت، ملٹری ایسٹبلشمنٹ اوراینٹیلیجنس ایجنسیوں کو یہ اجازت نہیں دیتا ہے کہ وہ کسی بھی پاکستانی شہری کو اسکے نظریات کی بنا پر لاپتہ کریں اور پھر بےدردی سے قتل کر کے اسکی لاش پھینک دیں۔دو بچوں کی ماں اور ایک پڑھی لکھی 30 سالہ شادی شدہ بلوچی لڑکی شاری بلوچ کے خودکش حملے کے بعد روسائے اقتدار کو ان واقعات سے سبق حاصل کرنا چاہے اور سنجیدگی سے مسنگ پرسنز کے رہنماؤں سےبات چیت کے ذریعے اس سنگین مسئلے کا حل نکالیں۔مسنگ پرسنز کے مسئلے پر بدقسمتی سے پاکستان کی کسی بھی حکومت نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے بلوچ، سندھی اور پختون قوم کے نوجوانوں اور خواتین میں شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے جس کا تدارک کرنا خود ہمارے اپنے ملکی مفاد میں ہے۔اس مسئلہ پر اس وقت تک صرف اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے اورکہا ہےکہ لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کریں یا ریاست کی ناکامی کا جواز دیں۔انہوں نے اپنے حکم نامےمورخہ 28 مئی 2022میں مزید کہا کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں لکھا کہ جبری گمشدگیاں ریاست کی غیر اعلانیہ پالیسی تھی اور ایسا لگتا ہے میڈیا ریاستی طاقت کے غلط استعمال اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کرتا ہے یا ترجیح نہیں دیتا۔کمیونسٹ پارٹی کی سپریم کورٹ سے استدعا ہےکہ وہ مسنگ پرسنزکے مسئلے کو اولین حیثیت دیں اور ریاست کےاندرریاست کا نوٹس لیں اور اسکا سدِباب اور ازالہ کریں۔
(4) آئینِ پاکستان 1973کے آرٹیکل 3کی بابت نہ ہی ریاست نے اور نہ ہی سپریم کورٹ نےکوئی پیش رفت کی ہے۔ یہ آرٹیکل مزدور، کسان، غریب اور پسے ہوئے عوام کو تحفظ فراہم کرتا ہے مگر آج تک پاکستان میں جو معاشی بدحالی اور ناانصافی مزدور، کسان، غریب اور پسے ہوئے عوام کے ساتھ سابق وزیراعظم عمران خان اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف اور ماضی کی تمام حکومتوں نے روا رکھی ہوئی تھیں اس کا مداوا آئینِ پاکستان 1973کے آرٹیکل 3میں موجود ہے مگر ریاست اورحکومت نے اس پر کبھی بھی توجہ نہیں دی ہے اورنہ ہی سپریم کورٹ نے کبھی آئینِ پاکستان 1973کے آرٹیکل 3کے تحت از خود نوٹس لیا ہے۔اصل حقیقت میں پاکستان صرف اور صرف بالادست طبقات، امرا اور رئیس لوگوں کی جگہ ہے۔آئینِ پاکستان 1973کا آرٹیکل 3انگلش اور اردو میں درج ذیل ہیں:۔
Elimination of exploitation
3- The State shall ensure the elimination of all forms of exploitation and the gradual fulfillment of the fundamental principle, from each according to his ability to each according to his work.
استحصال کا خاتمہ۔
۳۔ مملکت استحصال کی تمام اقسام کے خاتمہ اور اس بنیادی اصول کی تدریجی تکمیل کو یقینی بنائے گی کہ ہر کسی سے اسکی اہلیت کے مطابق کام لیا جائے گااور ہر کسی کو اسکے کام کے مطابق معاوضہ دیا جائے۔
محترمہ مریم نوازشریف صاحبہ، نائب مرکزی صدر،پاکستان مسلم لیگ(نون)! اس موقع پر میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ کو کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی مختصر سی تاریخ کے بارے میں آگاہی کردوں جو درج ذیل ہے۔
کمیونسٹ پارٹی اپنی شخصی اور معروضی حالات کے پیش نظر سیاسی میدان میں سماجی تبدیلیوں کے لیے ، انسان کےہاتھوں انسان کے استحصال سے پاک معاشرہ کے قیام اور پسماندہ اور غریب عوام کی فلاح و بہبود اورسول بالادستی اور حقیقی جمہوریت کے لیےسیاسی جدوجہد کر رہی ہے۔ پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی 1948 میں قائم ہوئی لیکن 1951 میں امریکی ہدایات کے تحت کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کر دی گئی اور اس کی اعلیٰ قیادت اورپارٹی ورکرزکو نام نہاد ‘راولپنڈی سازش کیس’ میں گرفتار کر کے قید کر لیا گیا اور پارٹی پرپابندی عائدکردی گئی۔تاہم 1999میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کو پھر فحال کیا گیا اور پارٹی نے ایک کھلی اور اوپن پارٹی کے طور پر سیاسی کام شروع کیا۔کمیونسٹ پارٹی پاکستان کی وہ واحد سیاسی پارٹی ہے جس نے پاکستان میں کبھی بھی کسی آمر اور فوجی حکومت کی حمایت نہیں کی جبکہ دیگر تمام سیاسی جماعتوں نے چند ایک کو چھوڑ کر فوجی حکومتوں اور جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف جیسے آمروں کی حمایت کی۔ پارٹی کےسابق سیکرٹری جنرل حسن ناصر کو 1962 میں ڈکٹیٹر جنرل ایوب نے جیل میں تشدد کرکے قتل کیا تھا اور پارٹی کےایک اور سابق سیکرٹری جنرل جام ساقی 1977 سے 1987 تک ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے دورِحکومت میں دس سال سے زیادہ طویل قید میں رہے۔ کامریڈ نذیر عباسی ، سی پی پی کی مرکزی کمیٹی کے رکن اور دیگر کو بھی فوجی حکومتوں کے دوران ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے تشدد کر کے قتل کیا۔
دستخط بتاریخ: 25جولائی 2022
(انجنئیر جمیل احمد ملک)
چیئرمین
(کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان)
کمیونسٹ پارٹی سیکریٹریٹ،
1426۔فتح جنگ چوک،
اٹک کینٹ
نمبر 0300-9543331