کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے چیئرمین انجینئر جمیل احمد ملک نے کہا ہے کہ لیفٹ الائنس بنانے کے لیے کل بروز ہفتہ 18 جون کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں جو کانفرنس منعقد کرنے کا کمیونسٹ پارٹی کی طرف سےاعلان کیا گیا اس سے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان (سی پی پی) کا کوئی تعلق وواسطہ نہیں ہے۔ امداد قاضی گروپ کی کمیونسٹ پارٹی ایسٹبلشمنٹ اور جنرل پرویز کی حامی اور چندہ چور پارٹی ہے۔2013 کے جنرل الیکشن میں حصہ لینے کے لیے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان نے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں پولیٹیکل پارٹیزآرڈر2002 کے تحت کمیونسٹ پارٹی کی رجسٹریشن کرائی اور درانتی کا نشان الاٹ ہوا تو امداد قاضی نے پارٹی فنڈ میں لاکھوں روپے کی خوردبرد کی اور کچھ ناسمجھ لوگوں سے کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے باہر ملک بھجوانے کے لیے رقم بھی لی تو کمیونسٹ پارٹی نے اسی وقت امداد قاضی کو کمیونسٹ پارٹی سے نکال دیا اور اس سے لاتعلقی کا اظہار بھی کر دیا تھا کیونکہ کوئی کمیونسٹ پارٹی فنڈ میں ہیراپیری اور خوردبرد کرے گا اور ملک سے باہر بھجوانے کا پیسہ ناسمجھ لوگوں سے لے گا اس کا کوئی کمیونسٹ تصور بھی نہیں کر سکتا ہے مگر بدقسمتی سے امداد قاضی اس بددیانتی کے فن میں ماہر ہیں۔ امداد قاضی گروپ کا اس نام نہاد کانفرنس منعقد کرنے کے صرف دو مقاصد ہیں۔ اول اس کانفرنس کے بہانے جتنا چندہ جمع ہو سکتا ہے وہ کیا جائے اور دوئم جنرل مشرف کے پاکستان آنے کے لیے راستہ ہموار کیا جائے جبکہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کا مطالبہ حکومت اور سپریم کورٹ سے یہ ہے کہ جنرل مشرف کو سپیشل ٹریبونل سے دی جانے والی سزائے موت کے اس فیصلے پر عمل کرائے جو سپیشل ٹریبونل کے سربراہ اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھی نے17دسمبر 2019 کودیا تھا۔
امداد قاضی گروپ کی نام نہاد کمیونسٹ پارٹی نے سول بالادستی اور حقیقی جمہوریت کے لیے کبھی بھی آواز بلند نہیں کی ہے جبکہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان نے سول بالادستی اور حقیقی جمہوریت کی ہمیشہ جدوجہد کی مگر بدقسمتی سے ہماری عدلیہ، ملٹری ایسٹبلشمنٹ،اینٹیلیجنس ایجنسیوں اور پاکستان کی تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کا کردار سول بالادستی اور حقیقی جمہوریت کے منافی رہا ہے ۔ہمارے نزدیک سول بالادستی اور حقیقی جمہوریت سے مراد یہ ہے کہ جس میں تمام ادارےبشمول عدلیہ ،فوج اوراینٹیلیجنس ایجنسیاں نیوٹرل نہیں بلکہ آئینِ پاکستان1973کےتحت جو حلف اٹھا رکھا ہے اسکی پاسداری کریں۔ جنرل پرویزمشرف کے عدالتی فیصلے پر ملٹری ایسٹبلشمنٹ کی ہدایت پر نواز شریف، مریم نواز، وزیردفاع خواجہ آصف، آصف زرداری، بلاول بھٹو،عمران خان اور موجودہ حکومت نے جس طرح جنرل مشرف کی بیماری کے بہانےمیں اب دوغلی پالیسی اختیار کی ہے اس سے ووٹ کو عزت دو کے علاوہ اب ان تمام سیاست دانوں کی عیاری، مکاری، بزدلی اور ملٹری ایسٹبلشمنٹ کی اطاعت بالکل ننگی اور واضح ہو گئی ہے جو شرمناک اور قابل مذمت ہے۔
اس ضمن میں کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے چیف جسٹس آف پاکستان اور دیگر تمام 13 ججوں کو چیئرمین کمیونسٹ پارٹی انجینئر جمیل نے ایک خط مورخہ 30مئی کو لکھا تھا جس میں کمیونسٹ پارٹی نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اور عدلیہ کی مجموعی ساکھ عوام میں اچھی نہیں ہے اور ہمارے ہاں یہ تاثر عوام میں عام پایا جاتا ہے کہ پاکستان کی عدالتیں صرف لٹیروں،چوروں،منشیات فروشوں، قبضہ گروپوں اور امرا اور عیاش طبقات کےتحفض اور مفادات کے لیے ہی ہیں۔سپریم کورٹ آف پاکستان اگر عوام میں اعتماد بحال کرنا چاہتی ہے تو سب سے پہلے جنرل پرویز مشرف کو سپیشل ٹریبونل سے دی جانے والی سزائے موت کے اس فیصلے پر عمل کرائے جو سپیشل ٹریبونل کے سربراہ اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمدسیٹھی نے17دسمبر 2019 کودیا تھا اور پھر اس فیصلے کے بعد لاہور ہائی کورٹ نےمورخہ 13جنوری 2020 کویہ فیصلہ دیا تھا کہ سپیشل ٹریبونل کا قیام ہی غلط تھا۔بہرحال عوام میں یہ تاثر عام ہے کہ جو فیصلہ سپیشل ٹریبونل نے دیا ہے وہ بالکل درست ہے اور جو بعد میں فیصلہ لاہور ہائی کورٹ نے کیا ہے وہ انصاف پر مبنی فیصلہ نہیں ہے بلکہ صریحاََ غلط فیصلہ ہےاوریہ فیصلہ دیا نہیں بلکہ زبردستی ملٹری ایسٹبلشمنٹ نے اپنی طاقت کی بنا پر لاہور ہائی کورٹ سے حاصل کیا تھا۔ اب ان دونوں میں کون سا فیصلہ درست ہے اس کافیصلہ سپریم کورٹ کو فوراََکرنا چاہے تا کہ عوام میں پایا جانے والایہ تاثر دور ہو سکے کہ سپریم کورٹ صرف سیاست دانوں کو ہی نہیں بلکہ جرنیلوں کو بھی سزا دینے کی صلاحیت و طاقت رکھتے ہیں۔اس ضمن میں یاد رہے کہ آرٹیکل 6 کےتحت سپریم کورٹ میں جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ دائر کرنے کے لیے سب سے پہلی جو آئینی پٹیشن 7ستمبر 2009 میں دائر ہوئی تھی وہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی جانب سے چیئرمین انجینئر جمیل نے خود ہی دائر کی تھی جس کا عنوان تھا کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان بنام فیڈریشن آف پاکستان وغیرہ اور پھر اس مقدمے کی باضابطہ پیروی کرتے ہوئے وہ مسلسل فل بینچ جس کی سرپراہی مسٹر جسٹس جواد ایس خواجہ، مسٹر جسٹس خلجی عارف حسین اور مسٹر جسٹس اعجاز افضل خان کر رہے تھے کےسامنے تمام تواریخ پر 15اپریل 2013سے 3جولائی 2013پیش ہو کر اس کیس کی پیروی کرتے رہے اور بالاآخر کمیونسٹ پارٹی اور ایسی دیگر کئی پٹیشنزکی بنا پر سپریم کورت کے حکم مورخہ 3جولائی 2013پرحکومتِ پاکستان نے جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین پاکستان کے آرٹیکل 6کے تحت غداری کے مقدمے کی کاروائی کا آغاز کیا اور سزائے موت کا حکم دیا اور اب میری خواہش اورسپریم کورٹ سے مودبانہ استدعا ہے کہ اس کیس کی اپیل کا فیصلہ جلد کیا جائےتا کہ انصاف ہوتا ہوا عوام کو نظر آئے۔
جاری کردہ: پریس میڈیا آف سی پی پی www.cpp.net.pk