،محترم ومکرمی جناب چیف جسٹس آف پاکستان
،سپریم کورٹ آف پاکستان
اسلام آباد۔
عنوان: درخواست کاروائی برخلاف سابق گورنرسندھ محمد زبیربذریعہ ازخود نوٹس زیرِآرٹیکل184(3) دستوراسلامی جمہوریہ پاکستان1973۔
جنابِ عالی!
سائل: مودبانہ درج ذیل عرض کرتا ہے
کہ یہ ایک عوامی مفاد کی درخواست ہے۔
یہ کہ درخواست گزارکمیونسٹ پارٹی آف پاکستان (سی پی پی) ایک سیاسی جماعت ہے جو دنیا کے تقریبا ہر ملک میں موجودہے۔ دنیا کے کچھ حصوں چین ،کیوبا،ویت نام اورشمالی کوریامیں کمیونسٹ پارٹی ایک حکمران جماعت ہے اور باقی ممالک میں یہ حکمران جماعتوں کی پالیسیوں اور نظام کے خلاف جدوجہدکر رہی ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کا بنیادی اور سیاسی منشور کارل مارکس کےسوشلزم کے نظریات پر مبنی ہے۔کارل مارکس ایک جرمن فلسفی ، سیاسی ماہر معاشیات ، تاریخ دان ، سیاسی نظریہ ساز ، سماجیات ، کمیونسٹ اور ہر دور کا ایک عظیم انقلابی تھا اورہے۔ کمیونسٹ پارٹی اپنی شخصی اور معراضی حالات کے پیش ِنظر سیاسی میدان میں سماجی تبدیلیوں کے لیے ، انسان کےہاتھوں انسان کے استحصال سے پاک معاشرہ کے قیام اور پسماندہ اور غریب عوام کی فلاح و بہبود کے لیےسیاسی جدوجہد کر رہی ہے۔ پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی 1948 میں قائم ہوئی لیکن 1951 میں امریکی ہدایات کے تحت سی پی پی پر پابندی عائد کر دی گئی اور اس کی اعلیٰ قیادت اورپارٹی ورکرزکو نام نہاد ‘راولپنڈی سازش کیس’ میں گرفتار کر کے قید کر لیا گیا اور پارٹی پرپابندی عائدکردی گئی۔تائم 1999میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کو پھر فحال کیا گیا اور پارٹی نے ایک کھلی اور اوپن پارٹی کے طور پر سیاسی کام شروع کیا۔
سی پی پی نے پاکستان میں کبھی بھی کسی آمر اور فوجی حکومت کی حمایت نہیں کی جبکہ دیگر تمام سیاسی جماعتوں نے چند ایک کو چھوڑ کر فوجی حکومتوں اور جنرل ایوب ، جنرل یحییٰ ، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف جیسے آمروں کی حمایت کی۔ پارٹی کےسابق سیکرٹری جنرل حسن ناصر کو 1962 میں ڈکٹیٹر جنرل ایوب نے جیل میں تشدد کرکے قتل کیا تھا اور پارٹی کےایک اور سابق سیکرٹری جنرل جام ساقی 1977 سے 1987 تک ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے دورِحکومت میں دس سال سے زیادہ طویل قید میں رہے۔ کامریڈ نذیر عباسی ، سی پی پی کی مرکزی کمیٹی کے رکن اور دیگر کو بھی فوجی حکومتوں کے دوران ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے تشدد کر کے قتل کیا۔ کمیونسٹ پارٹی کی یہ درخواست برخلاف کاروائی سابق گورنرسندھ محمد زبیربذریعہ ازخود نوٹس زیرِآرٹیکل 184(3) دستوراسلامی جمہوریہ پاکستان 1973 کے تحت پارٹی کے موجودہ چیئرمین انجینئر جمیل احمد ملک کے ذریعے دائر کی گئی ہے۔
یہ کہ اس سے پیشتر بھی سائل جنرل پرویزمشرف کے خلاف آئین ِپاکستان کی آرٹیکل 6کے تحت غداری کے مقدمے، dual office،جنرل پرویز مشرف کی وردی میں صدارتی الیکشن، سابق چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری کی برطرفی کے خلاف اور انکی بحالی،آئین پاکستان 1973 میں ایل ایف او اور 17 ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کیا، Contempt of Court Act, 2012 کی منسوخی،فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف اور دیگر کئی عوامی مفادکی آئینی پٹیشن میں وہ خودکمیونسٹ پارٹی کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں متعدد بارپیش ہو چکے ہیں۔
یہ کہ پاکستان مسلم لیگ نون کے سینئر رہنما و سابق گورنر سندھ محمد زبیر کی چند خواتین کے ساتھ انتہائی غیر اخلاقی و نازیبا ویڈیو ز26 ستمبر2021کو سوشل میڈیا پرلیک اور وائرل ہوئی ہیں۔منظر عام پر آنے والی متعدد ویڈیوز میں محمد زبیر کو مختلف کمروں میں الگ الگ خواتین کے ساتھ انتہائی غیر اخلاقی حالت میں دیکھا جاسکتا ہے، ان ویڈیوز میں محمد زبیر نیم برہنہ حالت میں دکھائی دے رہے ہیں ۔ویڈیوز کے علاوہ محمد زبیر کی ایک خاتون سے کی جانے والی گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگ بھی سامنے آئی ہے جس میں وہ خاتون سے جنسی سوال پوچھتے ہوئے نازیبا گفتگو کرتے سنائی دے رہے ہیں۔ویڈیوز منظر عام پر لانے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ محمد زبیر نے ان خواتین میں سے کچھ کو میڈیا میں نوکریاں دلوانے کا جھانسا دے کر اپنی ہوس کا نشانہ بنایا ۔ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ محمد زبیر نے ایک یا دو نہیں تقریبا 10 خواتین کو اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بنایا جن کے ساتھ کی گئی تمام تر حرکتیں ویڈیوز ثبوتوں کے شکل میں سامنے آچکی ہیں۔
یہ کہ عتیقہ اوڈھو پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے بیگ میں شراب کی دو بوتلیں کراچی سے اسلام آباد جاتے ہوئے لائی تھیں۔ اس پر سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخارمحمد چوہدری نے ازخود نوٹس لیا تھا جس کے بعد 7 جون 2011 کو ائیرپورٹ پولیس اسٹیشن میں عتیقہ اوڈھو کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھاجبکہ اب جو الزام بمعہ آیڈیوزاورویڈیوز کلپ کے سابق گورنرسندھ محمد زبیرپر لگا ہے وہ بہت ہی سنجیدہ ، عوامی مفاد اور عوام کے بنیادی حقوق کے زمرے میں آتا ہے اور انصاف کا تقاضا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس آف پاکستان اس کاازخود نوٹس لیں تاکہ عوام میں پھیلی ہوئی مایوسی وبےچینی کا سدِباب ہو سکے۔
یہ کہ سیاستدان اورعام آدمی کی زندگی میں بنیادی فرق صرف اور صرف یہ کہ سیاستدان کی زندگی کاہر پہلواور عمل قابل احتساب ہوتا ہے اور اسکی زندگی کی ہر بات پبلک کےلیے اوپن ہوتی ہے اور وہ اپنے کسی بھی عمل یا اس پر لگے الزامات کو یہ کہ کراپنی جان نہیں چھڑا سکتا کہ اس کا تعلق اسکی زندگی کی پرائیویسی (privacy) سے ہے۔ سیاستدان کی زندگی کا کوئی بھی پہلو یا عمل کا تعلق قطعاً پرائیویسی سے وابستہ نہیں ہے اور سیاستدان کا ہر عمل چاہے وہ اپنے گھر کےبیڈ روم یا وزیراعظم یاگورنر ہاؤس، کسی ہوٹل یا فارم ہاؤس کے بیڈروم کے ساتھ منسلک ہو وہ ہر حالت میں قابل احتساب ہے جبکہ عام آدمی کی کوئی پبلک لائف سیاستدان کی طرح نہیں ہوتی ہے اس لیے دنیا کا ہر قانون اسکی نجی زندگی کی پرائیویسی کو قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے جبکہ سیاستدان بشمول سابق گورنرسندھ محمد زبیرکی کوئی نجی زندگی نہیں ہوتی ہے۔اسی لیے وہ اپنے ہر فعل اور عمل کا چاہے گھر سے باہر یا گھر کے اندر ہو، وہ قابل احتساب ہے اور وہ عوام کو جواب دے ہے
یہ کہ ایک طرف آئینِ پاکستان میں کہا جاتا ہے کہ پاکستان ایک مسلم ریاست ہونے کے ناطے ، صدر پاکستان اور گورنر، جو ریاست اور صوبہ کے سربراہ ہوں گے ، وہ سمجھدار ، راستباز ، غیر پیشہ ور ، ایماندار، آمین۔ [آرٹیکل۔ 62 (f)]، اچھا کردار اور عام طور پر اس کے طور پر نہیں جانا جاتا ہوجو اسلامی احکامات کی خلاف ورزی کرتا ہے [آرٹیکل۔ 62 (d)] اور اس کے پاس اسلامی تعلیمات اور اسلام کے مقرر کردہ واجب فرائض کا مناسب علم ہو اور بڑے گناہوں سے پرہیز کرنےوالاہو۔ [آرٹیکل۔ 62 (e)] جبکہ منظر عام پر آنے والی متعدد ویڈیوز میں محمد زبیرجب وہ گورنر سندھ تھے کو مختلف کمروں میں الگ الگ خواتین کے ساتھ انتہائی غیر اخلاقی حالت میں دیکھا جاسکتا ہے، ان ویڈیوز میں محمد زبیر نیم برہنہ حالت میں دکھائی دے رہے ہیں ۔ویڈیوز کے علاوہ محمد زبیر کی ایک خاتون سے کی جانے والی گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگ بھی سامنے آئی ہے جس میں وہ خاتون سے جنسی سوال پوچھتے ہوئے نازیبا گفتگو کرتے سنائی دے رہے ہیں اور انکی یہ تمام حرکات مندرجہ بالا آرٹیکلز کے منافی ہیں۔
آئین پاکستان 1973کا تیسرا شیڈول صدر پاکستان ، وزیر اعظم ، وفاقی وزیر یا وزیر مملکت ، قومی اسمبلی کے اسپیکر یا چیئرمین سینیٹ ، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی یا ڈپٹی چیئرمین ، رکن قومی اسمبلی، سینیٹ کا رکن ، صوبے کا گورنر ، وزیراعلیٰ یا صوبائی وزیر ، صوبائی اسمبلی کا اسپیکر ، صوبائی اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر ، رکن صوبائی اسمبلی ، آڈیٹر جنرل آف پاکستان ، چیف جسٹس آف پاکستان یا ہائی کورٹ یا جج سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ ، چیف جسٹس یا وفاقی شرعی عدالت کے جج ، چیف الیکشن کمشنر اور مسلح افواج کے ارکان کے لیے حلف تجویز کرتا ہےکہ وہ سب آئین پاکستان کے تحفظ اور حفاظت کے لیے خدا (اللہ) کے نام کی قسم کھاتے ہوئےحلف اٹھاتے ہیں اوراس بات کا اعادہ کرتیں ہیں کہ وہ کوئی ایساکام نہیں کریں جو اسلامی تعلیمات اورانکے فرائض ِ منصبی کے منافی ہوگالیکن حیرت انگیز طور پرصوبہ سندھ کے گورنر محمد زبیرنے اپنے عہدے اور حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک یا دو نہیں تقریبا 10 خواتین کو اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بنایا جن کے ساتھ کی گئی تمام تر حرکتیں ویڈیوز ثبوتوں کے شکل میں شوسل میڈیاکے سامنے آچکی ہیں۔حلف بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔ حلف ہمیشہ اس شخص کے مذہب کے مطابق لیا جاتا ہے جو حلف لے رہا ہو۔
یہ کہ 1973کے آئین کی آرٹیکل184(3)میں حدود متعین ہیں کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کب اور کن حالات میں اس آرٹیکل184(3)کےتحت کاروائی کاقانونی استحقاق رکھتا ہے۔سب سے پہلے یہ شرط ہے کہ عدالت صرف عوامی اہمیت کےمعاملےپرسماعت کرسکتی ہے اور دوسری بات اورشرط یہ ہے کہ اس کا تعلق بنیادی حقوق سے متعلق ہے۔ لہذا اگر بنیادی حقوق کی مکمل خلاف ورزی ہو رہی ہے تو آرٹیکل 184(3) سپریم کورٹ کو عمل کرنے کے قابل بناتا ہے۔ یقینا یہ عوام کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ مثال کے طور پر ، اگر کوئی ڈیم جو کہ 10000یا یہاں تک کہ 1000 لوگوں کو پانی فراہم کر رہا ہے ، آلودہ ہو رہا ہے تو ان کے بنیادی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف مقدمہ شروع کرنے کے لیے وسائل نہ ہوں ، لیکن عدالت اس معاملے کو اٹھااور سماعت کر سکتی ہے۔ تو یہ ایک شاندار آلہ (devise)ہے۔ یہ آرٹیکل 184(3)معاشرے کے غریب طبقات کے لیے اچھا ہے ، یہ ان کی حفاظت کرتا ہے اور یہ ان کی حمایت کرتا ہے اور یہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔ اب اگر کسی کا کسی کے ساتھ ذاتی جھگڑا ہے تو یہ آرٹیکل 184(3)کےزمرے میں نہیں آتاہے۔ لہذا ، ٹیسٹ بنیادی حقوق اور عوامی اہمیت کاہے۔ اگر سپریم کورٹ کسی ایسے معاملے کا نوٹس لیتی ہے جو ان دو شرائط میں نہیں آتا تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار سے باہر کام کر رہی ہے۔جبکہ محمدزبیرنےبحثیتِ گورنرسندھ اپنے حلف کو پامال کیا اوراخلاق سے گری ہوئی شرمناک حرکتیں کیں جس سے ایک فرد کے نہیں بلکہ پوری قوم کے بنیادی حقوق پامال ہوئے ہیں اور بلاشک وشبہ ان کایہ کیس بنیادی حقوق اور عوامی اہمیت کےزمرے میں آتا ہے اورمحمد زبیر سابق گورنر سندھ کے خلاف دونوں بنیادی حقوق اور عوامی اہمیت کامسئلہ ہے اوراس پر ازخود نوٹس لینے میں چیف جسٹس آف پاکستان کے راستے میں کوئی بھی قانونی رکاوٹ نہیں ہے
مزید برآں ، آرٹیکل 184(3) کے تحت نہ صرف ایک متاثرہ شخص بلکہ کوئی بھی شخص سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاسکتا ہے اور درخواست گزار کی مذکورہ آئینی درخواست میں لوکس سٹینڈی (Locus Standi)یا صحیح فورم پر کوئی سوال شامل نہیں ہے۔ سپریم کورٹ ہی صحیح فورم ہے اور اگر سپریم کورٹ جائز اور صحیح کام کرنے سے پرہیز کرتی ہے تو آرٹیکل 184(3) مکمل طور پر بےاثراور بے کار ہو جاتا ہے اور یہ آئین پاکستان 1973 کی بنیادی روح کے خلاف ہے۔آرٹیکل 184(3)کے تحت نہ صرف ایک پریشان شخص (Aggrieved Party)بلکہ کوئی بھی شخص سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاسکتا ہے اور لوکس اسٹینڈی یا صحیح فورم پر سوال کو اس طرح رد نہیں کیا جاسکتا ہے۔سپریم کورٹ کے سامنے عوامی اہمیت اوربنیادی حقوق کی پامالی کی ازخوددرخواست برائے نوٹس یا آئینی پٹیشن موجود ہو اور اس کی سماعت سے اگر سپریم کورٹ گریز کرے تو یہ چیف جسٹس آف پاکستان اور ججوں کے آئین پاکستان کے تیسری شڈول میں دیئے ہوئے حلف اور آئین ِپاکستان1973 کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے۔اور سائل کی درخواست کاروائی برخلاف سابق گورنرسندھ محمد زبیربذریعہ ازخود نوٹس زیرِآرٹیکل 184(3) دستوراسلامی جمہوریہ پاکستان1973 میں بنیادی حقوق اور عوامی اہمیت کے دونوں سوال موجود ہیں۔لہذا سائل کی درخواست برائے ازخود نوٹس قابلِ سماعت ہےاور سائل کو پوری امید ہے کہ سپریم کورٹ سائل کی اس درخواست پر سابق گورنر سندھ محمد زبیر کے خلاف ازخود نوٹس کی سماعت کے لیے جلد کوئی بینچ تشکیل دےگا۔
یہ کہ سائل کی مذکورہ بالا ازخودآئینی درخواست آئین پاکستان 1973 کے آرٹیکل 184(3)کے تحت قرآن پاک اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے ساتھ پڑھی جائے جو کہتی ہے۔ “اگر تم بنی نوع انسان کے درمیان فیصلہ کرو ، کہ تم انصاف سے انصاف کرو” اور “لوگ سب کنگھی کے دانتوں کے برابر ہیں”
“if Ye Judge between mankind, that Ye Judge justly” and “people are all equal as the teeth of a comb” and general rule i.e. no one is above law
اور عام اصول یعنی کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔
یہ کہ ہمارے ملک پاکستان میں اس قسم کی ویڈیوز آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی یا جنسی فعل میں ملوث پارٹیاں ایک دوسرے کو بلیک میل کرنے کے لیے خود بھی بناتی ہیں۔سائل کی چیف جسٹس آف پاکستان اورسپریم کورٹ آف پاکستان سے مودبانہ درخواست ہے کہ وہ آئی ایس آئی،ایم آئی اور آئی بی کو حکم صادر فرمائیں کہ وہ سب سیاستدانوں کی جنسی اور غیر اخلاقی ویڈیوز جو انکےپاس موجود ہیں، وہ اب بلاامتیاز قوم کے لیے پبلک کریں تاکہ ان ناسور سیاستدانوں سے قوم کو نجات ملے اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر نےجو اپنے عہدے کا غلط استعمال کیا ہے اسکے خلاف ازخودنوٹس پر کاروائی کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان حکومت کے متعلقہ اداروں کو سابق گورنر سندھ محمد زبیر کے خلاف فوری کارروائی کا حکم صادر فرمائیں تا کہ انصاف کا بول بالا ہویا آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے کوئی دوسرا علاج ، جسے یہ معزز عدالت کیس کے حقائق اور حالات میں مناسب اور مناسب سمجھتی ہے ، بھی دی جا سکتی ہے اور یہ ازخودپٹیشن کی درخواست احسن طریقے سے قبول کی جا سکتی ہے۔ یہ دعا انصاف اور مفادِعام میں کی گئی ہے۔
دستخط
(کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان)
سائل بذریعہ:
چیئرمین کمیونسٹ پارٹی
(انجنئیر جمیل احمد ملک)
-1426فتح جنگ چوک
اٹک کینٹ۔
منجانب: پریس میڈیا آف سی پی پی
ویب سائیٹ : www.cpp.net.pk
موبائل نمبر:0300-9543331