یکم مئی محنت کشوں کا عالمی دن
ممتاز احمد آرزو
آج ہم یکم مئی ایک ایسے وقت میں بنا رہیے ہیں جب کروانا وائرس کی وبا نے ساری دنیا کو گھروں میں معصور کر کہ رکھ دیا ہے آج ہی کے دن شکاگو جنکشن کے عظیم محنت کشوں نے وہی 1886 میں یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد پہلی مرتبہ اپنے حقوق منوانے باہر نکلے تھے کیونکہ اس وقت تک محنت کش کے اوقات کار مقرر نہیں تھے اور محنت کشوں سے اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام لیا جاتا تھا لیکن اس جائز احتجاج پر امریکن پولیس نے مزدوروں پے گولیاں برسائی امریکی سرکار کے غنڈے سپاہیوں نے مزدوروں کو خون میں نہلا دیا اور مزدور رہنما انجل فشر پرسن اور سپائز کو پھانسی کی سزا دی گئی لیکن 1890 میں پہلی مرتبہ باقاہدہ اس دن کو بنایا گیا اور وہ مراعات جو آج ہر مزدور یا سروس مین کو حاصل ہیں ان عظیم محنت کشوں کی جوجہد کی اس قربانی سے حاصل ہوئی یہ جدوجہد کا ہی نتیجہ ہے جس کی وجہ سے 8 گھنٹے ڈیوٹی ٹائم ہفتے کی باقاہدہ چھٹی ٹریڈ یونین کا حق ملازمت کا تحفظ مزدوروں کے لیے لیبر کورٹ کا قیام اور خواتین محنت کشوں کو حمل کے دوران چھٹی حاصل ہوئی اسی طرح پھر جدوجہد ہی کے عمل سے پنشن گروجیٹی بانس وغیرہ جتنی بھی مراعات ہیں جس سے آج سروس مین سے لے کر اداروں فیکٹریوں میں جتنے محنت کش کام کر رہیے ہیں استفاده حاصل کر رہیے ہیں ان سب کو یہ مراعات انہی قربانیوں کے نتیجے میں حاصل ہوئی لیکن المیہ یہ ہے کہ آج بھی ریاستی ادارہ خصوصاََ پولیس احتجاج کرنے والے محنت کشوں پے ڈنڈے اور گولیاں برسارہیے ہیں دنیا بھر کے وہ سب سروس مین جن میں پولیس سمیت سارے ادارے شامل ہیں ان قربانیوں کے ثمرات حاصل کر رہیے ہیں جنھوں نے پل بھر بھی زندگی میں نہیں سوچا ہو گا کہ یہ مراعات جو پنشن ڈیوٹی ٹائم اور ہمارے تمام تر حقوقِ کی صورت میں ہمیں ملی ہیں کس کی جدوجہد کا نتیجہ ہے لیکن تاریخ میں شکاگو کے عظیم محنت کشوں کی ان قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا لیکن ہم یہ محسوس کر رہیے ہیں کہ اب یہ عظیم دن بھی فقط روایت بنکر رہ گیا ہے بالکل اسی طرح جس طرح ایک وقت میں حصرت موسی فرعون کے خلاف غریبوں کی حمایت میں نکلے تھے تب انکے پاس صرف ایک آسا تھا آج انہی کے ماننے والے بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالک ہیں یا حضرت عیسی جب مظلوں کی حمایت میں نکلے تھے تو انکا نشان گڑریا کا وہ کلاک تھا جس سے وہ اپنی بھیڑوں کو پتے توڑ کہ دیا کرتے تھے اسکی سزا میں زمانے والوں نے انہیں کانٹوں کا تاج پہنایا آج پر وقار عمائد دین اور اہل کلیسا سونے کے تاج پہن کر سونے کا کلال ہاتھ میں لے کر انکی غریب نوازی کو خراج عقیدت پیش کررہیے ہیں ویسے ہی امیر لیبر یونین یا انجیوز والے مزدوروں کا دن بناتے ہیں یا پھر جسطرح تخت دمشق کے جبر کی کہانی دہرائی جاتی ہے نوحے پڑھے جاتے ہیں اور سینہ کوبی کی جاتی ہے ان محنت کشوں کی قربانیوں کو بھی اسی طرح ایک روایات بنا کہ رکھ دیا گیا ہے اب تو مزدوروں کا یہ پروگرام بھی ملک کے مہنگے ہوٹلوں میں بنائے جاتے ہیں جسنکو انجیوز تشکیل دیتی ہیں مزدوروں کو تصویریں بنوانے کے لیے بلایا جاتا ہے یہ بھی ایک بجنس ہے سرمایہ دار نے بھی منافعے کی کیا نت نئی رائیں ایجاد کی البتہ کہیں کہیں بے بس مزدور احتجاج کرتے ہیں اور شگاگو کے محنت کشوں کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے لیکن بہت کم ایسے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں جس میں سہی معنوں میں محنت کش اور انکے حقوق یا انکی زندگی کی تلخیوں کے متلق درست معنوں میں بات کی جاتی ہو سچ یہ ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں اور مالیاتی اداروں نے آجکے اس کاروباری اور اشتہاری دور میں مارکس کے اس باشعور محنت کش سمیت مزدورو اور خصوصاً مزدور لیڈروں کو سخت کائر اور لالچی اور مفاد پرست بنا کہ رکھ دیا ہے اور وہ مراعات کے اس نشے میں وہ سب بھول چکے ہیں جو انکا فرائض منصبی تھا یہی وجہ ہے کہ آج مارکس کے اس منظم محنت کش اور مزدور لیڈروں سے عام محنت کش کا اعتماد اٹھ چکا ہے جو کبھی ایک عہد میں تھا آجکا المیہ یہ ہے کہ ساری دنیا میں کوئی ایک بھی مزدور لیڈر مثال کے طور پر نہیں ملتا جس کو مثال بنا کر پیش کیا جاسکتا ہو جس میں ریاست کو سنبھالنے اور اسکا نظام چلانے کی اہلیت ہو بلکہ المیہ یہ بھی ہے کہ مزدور لیڈر اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ وہ اپنے ساتھیوں کی چھوٹی چھوٹی مانگیں پوری کرنے کی اہلیٹ بھی کھو چکے ہیں کیونکہ ان میں کوئی بھی سپائیز نہیں ہے جو اپنی مانگیں پوری نا ہونے پے ہنس کہ سولی چڑھ جائے کو ترجیع دیتا ہو بڑی اکثریت چوری کھانے والے رانجھوں پے مشتمل ہے جو چوری کھائے جا رہیے ہیں اور سرمایہ داروں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ آو اور ہمیں ہمارا حصہ دے کر اس نظام بے رحیم کو یونہی چلاتے رہو جس نے دنیا کو موت کی ہولناک وادیوں میں دھکیلنے کا پورا منصوبہ بنا رکھا ہے
لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ نفسیاتی اور جدلیاتی طور پر ٹریڈ یونین کا کیا کام بنتا ہے
ٹریڈ یونین کبھی بھی انقلابی نہیں ہوتی اسکی نفسیات بارگنگ کرنے کی ہوتی ہے اور وہ اسی بارگنگ سے زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کرنا چا رہی ہوتی ہے ٹریڈ یونین کا مطالبہ کبھی بھی فکٹری مالک سے یہ نہیں ہوتا کہ جس فکٹری سے ہم پیدا کرتے ہیں اسکا مکمل کنٹرول ہم سنبھالنا چاہتے ہیں اور یہی نفسیات مزدور یونین ہو یا اسطرح کی اور بے شمار اور یونین ہیں جسطرح کے طلبہ یونین ہے یا اسطرح کی اور بے شمار یونین ہیں ان سب کی یہی نفسیات ہوتی ہے وہ ادارے ملیں یا فیکٹریاں یا یونیورسٹیاں چلانے کی بات نہیں کر رہی ہوتی بلکہ اپنی مختصر مانگو کی بات کر رہی ہوتی ہیں انکو انقلاب کی سمت لے جانے والی انقلابی پارٹیاں ہوتی ہیں لیکن ہمارے المیے اتنے دردناک ہیں جن کو بیان کرتے ہوئے وہی شام غریباں کا منظر سامنے آجاتا ہے
جسطرح ہمارے ہاں مزدور لیڈروں کا حال ہے وہی حال ہمارے کمیونسٹ لیڈروں کا بھی ہے ایک عہد تک لیبر یونین کمیونسٹ پارٹیوں کے ساتھ ملکر کام کیا کرتی تھی تب سوویت یونین میں سوشلسٹ موجود تھے اور شاہد ان پارٹیوں کو لیبر یونین کے فنڈز کی ضرورت بھی نا تھی لیکن روس میں رد انقلاب کے بعد کمیونسٹ دھڑے جنکے پاس اپنا کیڈر موجود تو نا تھا تنہا رہ گئے اور لیبر یونین کے لیڈروں نے بھی انکو گھاس ڈالنا چھوڑ دی کچھ لوگ انجیوز کے ساتھ چلے گئے اور کچھ نے بدیشی مزدور یورپین یا دوسرے ممالک کے بائیں بازوں کے پروگراموں تک آنیاں جانیاں تک اپنے آپکو محدود کر لیا نتیجتا لیبر یونین میں تربیت نام کی کوئی چیز باقی نا رہی اوپری سطح کی اکثریت مفاد پرست بن گئی اور نام نہاد یونین باقی رہ گئی رہیے پسے ہوئے مزدور تو انکی کون سننے کیونکہ جسکو بھی کندوں پے بٹھا کر لیڈر بناتے ہیں وہ انکو بھول جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج کروانا جیسی وبائی مرض کی سخت گھڑی میں ناصرف مقامی کارخانہ دار بلکہ وسیع پیمانے پے ملٹی نیشنل فیکٹریاں بھی مزدوروں کو باہر نکال پھنک رہی ہیں لیکن نام نہاد یونینز کچھ نہیں کر پارہی ان سارے حالات میں سرکار سمیت ملکی و غیر ملکی کمپنیاں عالمی اجارہ داری اور میڈیا سمیت نام نہاد فقط لبرل دانشور سب ایک مقدس اتحاد بنائے ہوئے ہیں محنت کشوں سے انکی مراعات سمیت ان سے لڑنے اور اپنے حقوق حاصل کرنے کے حوصلے بھی چھینے جا رہیے ہیں اور یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب سرمایہ دارانہ نظام ساری دنیا میں نگا ہو کر بیچ چوہرائے کھڑا ہے جسکے پاس صرف لینے کے سوا دینے کو کچھ نہیں بھلے ساری دنیا مر جائے لیکن اس لالچی اور ہوس زدہ نظام کی دولت اگھٹا کرنے کی نفسیات نہیں جاتی اب محنت کش پے دہری زمہ داری عائد ہوتی ہے جس کے پاس آخیری راستہ جدوجہد کا ہے ایک لڑائی ان ظالم سرمایہ داروں کے ساتھ ہے تو دوسری طرف اپنے مزدور لیڈروں پے کڑی نظر رکھنے اور انجیوز کی چالاکیوں سے بچنے کی ہے ایک عہد تک پاکستان میں ایماندار اور لڑاکا مزدور لیڈر تھے تب تک مزدور یونین اپنے مطالبات منواتی تھی اس دن ان عظیم مزدور رہنماوں کے نام لینا ضروری سمجھتا ہوں جن میں بہت سارے چل بسے اور کچھ آج بھی زندہ ہیں اور اپنی جدوجہد میں مصروف ہیں جن میں دادا امیر حیدر شوبو گیان چندانی حیدر بخش جتوئی جو کسانوں کے لیڈر تھے لیکن انکی جدوجہد کو بھی سرخ سلام اسی طرح عظیم مزدور لیڈر مرزا ابراہیم فضل الہی قربان ایس پی لودھی نارائن داس بچر طفیل عباس نبی احمد منہاج برنا منظور احمد رضی اور شوکت چوہدری پاکستان کی تاریخ میں یہ مزدور رہنما اپنے عہد میں زبردست نظریاتی قوت کے ساتھ برسرے پیکار رہیے اور محنت کشوں کو انقلابی نظریات کا شعور دیتے رہیے
یہ بات کہ اب حالات بدل گئے اب کچھ نہیں ہو سکتا آجکے تقاضے مختلف ہوں ٹھیک ہے تقاضے مختلف ہو سکتے ہیں لیکن دشمن تو وہی ہے ویسا ہی استصال ہے جبر زیاتی ہے اپنے حقوق کے لیے محنت کشوں کو پھر منظم ہونا پڑھے گا اور ایک دوسرے کے لیے قربانی کا جزبہ پیدا کرنا پڑھے گا اگر ایک ادارے فکٹری یا مل کے محنت کش اپنے پے ہونے والے ظلم پے سراپائے احتجاج ہیں تو انکی آواز کے ساتھ دوسرے اداروں اور فیکٹری ملازمین کو بھی ساتھ دینا ہو گا اپنے حقوق کی جنگ خود ہی لڑنا ہوگی کوئی طشتری میں رکھ کر یہ حقوق نہیں دے گا یہی پیغام ہے شکاگو کے عظیم محنت کشوں کا جنھوں نے گولیاں کھا کر پھانسیوں پے جھول کر امرہو گئے اور اپنے مزدور ساتھیوں کو اپنی قربانیاں دے کر حقوق دلائے آج ناصرف ان حقوق کی حفاظت کی ضرورت ہے بلکہ اس منافعے اور محنت کے نظام کو اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے اور اس منزل تک پہنچنے کا آخیری راستہ جدوجہد اور صرف جدوجہد ہے جسے سچائی کے ساتھ اپنانا ہوگا اس صبح تک جب کوئی کسی کا استصال نا کر سکے شگاگو کے عظیم محنت کشوں کو سرخ سلام
مزدور اتحاد زندہ آباد